تو مکمل میسر نہ تھا

 تو مکمل میسر نہ تھا

 بقلم حورین خان

قسط نمبر ١

___

کراچی میں گرمیاں اپنے عروج پر تھی اج بھی سورج بادلوں میں چھپنے پر راضی نہیں لگتا تھا ہر کوئی گرمی سے پریشان لگتا تھا 

آسمان پر پرندوں کا ہجوم بھی کم تھا شاید وہ بھی اپنے گھونسلوں میں چھپ بیٹھے تھے 

خیر اپکو لے چلتے ہیں دیوان ہاؤس جہاں کریم صاحب چھوٹا سا اشیانہ اباد ہے 

 __

یہ ہے دو منزل کا گھر جسکے باہر نیم پلیٹ پر جلی حروف میں دیوان ہاؤس لکھا ہے 

کیوں نا اس کے اندر جھانکا جائے کہ کیا ہو رہا ہے 

تو چلیے—

____ 

صفراء کہاں رہ گئی ہو بھئی یونی کے لیے دیر ہو رہی ہے۔وہ نیچے سیڑھی پر کھڑے ہو کر مسلسل بی بی صفراء کو آواز لگا رہی تھی 


یار ثمرہ بس 5 منٹ اور رک جا بس حجاب باندھںا رہ گیا – اسکی منت بھری اواز ائی


ثمی بیٹا اسے انے میں ٹائم ہے ایسا کرو ناشتہ کر لو۔پاس سے گزرتی فروا بیگم نے ثمرہ سے کہا جو کب سے کھڑی اس مہرانی کا انتظار کر رہی تھی


بڑی ماں بلکل بھوک نہیں ہے کینٹن میں کچھ کھالوں گی-اس نے نفی میں سر ہلا کر کہا 


صفر کیا کر رہی ہو بیٹا وہ بیچاری کب سے تمھارا انتظار کر رہی ہے کتنی بار کہا ہے کہ ٹائم سے تیار ہوا کرو لیکن تمھیں سمجھ نہیں اتی۔بڑی ماں سیڑھیوں سے اتری صفراء کو کہا 


ماں رات میں اسائنمنٹ بنا رہی تھی تو سونے میں دیر ہو گئی اسی لیے صبح دیر انکھ کھلی۔اس نے کہا 


اچھا اب ذیادہ باتیں مت کرو چلو ویسے ہی 15 منٹ لیٹ ہو گئے ہیں ہم پتا ہے نہ کل بھی سر محراب نے نکال دیا تھا۔ثمرہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔


یار اس کھڑوس کا تو کام ہی یہی ہے ہر وقت غصے میں رہتا ہے۔صفراء نے ناک چڑھا کر کہا 

__

وی کمنگ سر?کلاس روم کی دہلیز پر کھڑی وہ تھوڑا جھجک کر کہہ رہی تھی 


آئیے آئیے مس صفراء امجد اج بھی اپنی روایات قائم رکھتے ہوئے پورے 15 منٹ لیٹ ہیں۔اس نے طنزیہ کہا 


سوری سر ائندہ ایسا نہیں ہوگا۔اس نے شرمندہ ہر کر کہا کیونکہ سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی 


جی جب اپ دو پریڈ ایسی کھڑی رہے گیں تو ویسے بھی کل سے لیٹ نہیں ہوں گیں۔اس ںے سکون سے کہا تھا 


جی لی لیکن کیوں۔بے یقینی سے پوچھا 

کیا اپ بھول رہی ہیں کہ اپ روز کلاس سٹارٹ ہونے کے 15 مںٹ بعد اتی ہیں اور جو اسائمنٹس ملتے وہ بھی اپ کمپلیٹ نہیں کرتیں تو اپکی سزا ہے یہ کہ اپ اج پریڈ کھڑی رہے گیں۔اس نے بازو سینے پر باندھے 


لیکن سر میں اج کا اسائنمنٹ بنا کر  لائی ہوں چاہے تو اپ دیکھ لے۔صفراء نے اسائنمنٹ نکلا کر اگے کیا 


فلحال تو جا کر اپ اپنی سیٹ پر کھڑی ہو جائیں جب اسائنمنٹ میں نے دیکھنے ہوں گے تو دیکھ لوں گا۔اس نے نظر پھیر کر کہا


وہ بوجھے دل کے ساتھ اگے قدم بڑھا گئی اور جا کر کھڑی ہو گئی۔


سر محراب ہیں ان کے اکاؤنٹس کے سر جو بقول صفراء کہ ہر وقت سڑے رہتے ہیں۔

___

دیوان ہاؤس میں کریم صاحب اور عالیہ بیگم کی دو اولادیں ہیں بڑے امجد صاحب اور دوسرے افتخار صاحب ۔امجد صاحب اور فروا بیگم کی بیٹی صفراء جو کہ انکی اکلوتی اولاد ہے اور افتخار صاحب اور فاخرا بیگم کے دو بچے ہیں بڑا بیٹا راحم اور چھوٹی بیٹی ثمرہ ۔

___

امی اب تو میں نے اپنی پڑھائی بھی مکمل کر لی ہے اور عنقریب نوکری بھی لگ جائے گی اپ کب جائیں گیں افتخار انکل کے گھر میرا رشتہ لے کر ثمرہ کے لیے۔کھانا کھانے کے لیے وہ سب ڈائنگ پر بیٹھے تھے تب اس نے کہا 


دیکھ دائم میں تجھے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ ثمرہ نہیں بلکہ صفراء کو اپنی بہو بناؤ گیں۔مقابل نے قطعیت سے کہا 


اور میں بھی اپکو کتنے بار کہہ چکا ہوں میری پسند ثمرہ ہے شادی تو میں اسی سے کروں گا سن لے اپ بھی۔اس نے دانت پیس کر کہا 


دیکھ رہے صارم صاحب کیسے بات کر رہا ہے یہ ماں کل کی ائی ہوئی لڑکی کے لیے۔انہوں سربراہی کرسی پر بیٹھے میاں کو مخاتب کیا 


اخر ثمرہ بیٹی میں خرابی کیا ہے جو تم اس رشتے پر راضی نہیں ہو اچھی بچی سادہ مزاج کی ۔انہوں قدرے نرمی سے کہا 


خرابی ارے کہاں سے وہ اس کے ساتھ ججتی ہے سانوالا رنگ چھوٹا قد نہ پہننے کا ڈھنگ کا اوڑھنے کا ۔عرفہ بیگم نے نخوت سے کہا 


بس امی میں ایک لفظ نہیں سنوں گا اس کے خلاف اگر اپ نہ بھی مانی تو میں اور بابا خود چلے جائے میرا رشتہ لینے اور یہ بات طے ہے۔دو ٹوک انداز میں کہتا وہ تن فن کرتا چل دیا 


میں بھی دیکھتی  کیسے کرے گا اس سے شادی ہنہہ۔سر جھٹکا تھا

__ 

جاری ہے

رائے  دینا نہ بھولیں 

Comments